الفاظ۔ معنی
چین کے بنسی بجانا عیش کرنا
نٹھلا نِکما
ہنسی اڑانا مذاق اڑانا
ملیا میٹ ختم برباد
پنجے جھاڑ کر پیچھے پڑنا کسی کو بہت پریشان کرنا
غصے میں بھنّا بہت غصہ کرنا
چپ سادھ لینا خاموش ہو جانا
طاقت جواب دینا طاقت ختم ہو جانا
جلی کٹی سنانا برا بھلا کہنا
سکت طاقت
فاقہ کشی بھوکا رہنا
کم تر حقیر
مشق
ایک جملے میں جواب لکھئے
۱) خواب كس نے دیکھا ؟
جواب ۔خواب ایک بڑے میاں نے دیکھا۔
۲) پیٹ کی کس کس نے ہنسی اڑائی ؟
جواب۔ پیٹ کی منہ ،زبان اور دانتوں نے ہنسی اڑائی۔
3)۔ پیروں نے کیا تجویز پیش کی؟
جواب۔پیروں نے یہ تجویز پیش کی کہ ہم سب پیٹ کے لیے کچھ کرنا دھرنا چھوڑ دیں۔
4) عادت کے مطابق بڑے میاں بستر سے کیوں نہ اٹھ سکے ؟
جواب۔ اپنی عادت کےمطابق بڑے میاں بستر سے اٹھ نا سکے کیوں کہ جب انہوں نے اٹھنا چاہا تو لگا پاؤں بےجان ہو کر رہ گئے ہیں۔پھر ہاتھ ہلانے کی کوشش کی تو ہاتھوں نے بھی کوئی حرکت نہ کے ۔نہ منہ کھول سکے نہ زبان سے کچھ بول سکے۔
5)۔ کسی کو خود سے کم تر نہ سمجھنے کا کیا فائدہ ہے؟
جواب۔کسی کو خود سے کم تر نہ سمجھنے کا فائدہ یہ ہے کہ اس سے زندگی کی گاڑی صحت اور سکون کے راستے پر چل سکے گی۔
سوال نمبر 2۔۔ مختصر جواب دیجئے۔۔
1)۔خواب میں پیروں نے پیٹ سے کیا کہا؟
جواب۔خواب میں پیروں نے پیٹ سے کہا" پیٹ ر ے پیٹ تو موٹا بھی ہے اور عقل کا کھوٹا بھی ۔کام کا نہ کاج کا دشمن اناج کا۔ہم دن بھر چلتے ہیں ۔بازار جاتے ہیں ۔کھانے پینے کا سامان بھی لاتے ہیں۔ تو بس کھاتہ ہے اور چین کی بنسی بجاتا ہے۔ نٹھلا کہیں کا۔"
2)پیروں کی بات سن کر ہاتھوں نے کیا کہا؟
جواب۔پیروں کی بات سن کر ہاتھوں نے یہ کہا "ہاں ہاں!پیر ٹھیک ہی تو کہتے ہیں ۔ اب ہمیں کو دیکھ ۔ہم کتنی محنت کرتے ہیں۔باغ کی صفائی ،گیہوں کی پسائی ۔پھر آگ جلانا ،کہنا پکانا،ي سب ہمارے ذمّے ۔اور تو !۔۔۔۔سب کچھ چٹ کر جاتا ہے مفت خور۔"
3)منہ زبان اور دانتوں نے پیٹ کو کیا کھری کھری سنائی۔؟
جواب۔منہ ،زبان اور دانتوں نے پیٹ کو اس طرح کھری کھری سنائی کہ ہم نہ ہوتے تو کیا تو بازار جاتا کیا قسم قسم کے پکوان اڑاتا۔ہاتھ پاؤں اپنا کام کرچکے ہیں تو کھانا ہم چباتے ہیں اس کا مزہ ہم بتاتے ہیں۔اسے معدے تک ہم پہنچاتے ہیں ۔ پیٹ ر ے پیٹ تو ہو ملیا میٹ !
4)بڑے میاں نے بستر سے اٹھنا چاہا تو کیا محسوس کیا ؟
جواب ۔بڑے میاں نے جب بستر سے اٹھنا چاہا تو لگا پاؤں بےجان ہو کر رہ گئے ہیں۔پھر ہاتھ ہلانے کی کوشش کی تو ہاتھوں نے بھی کوئی حرکت نہ کی۔نہ منہ کھول سکے نہ زبان سے کچھ بول سکیوں لگتا تھا جیسے بیمار پڑگئے ہوں ۔
5) ہاتھ پاؤں منہ اور زبان اور دانت کو اپنی غلطی کے احساس کو ہوا؟
جواب۔مسلسل فاقہ کشی کی وجہ سے بدن سکھ گیا تھا۔ خل لٹک گئی تھی۔رگیں اینٹھ گئی ہیں ۔جسم میں خون کا ایک قطرہ بھی نہیں۔ہاتھ پاؤں منہ زبان اور دانت اتنے کمزور ہو گئے تھے کے پیٹ سے لڑ بھی نہیں سکتے۔خود کو حرکت بھی دینا چاہیں تو نہیں دے سکتے۔تب جاکر ہاتھ پاؤں منہ زبان اور دانت کو اپنی غلطی کا احساس ہوا ۔
6) خواب سے جاگنے کے بعد بڑے میاں نے کیا دیکھا ؟
جواب : خواب سے جاگنے کے بعد بڑے میاں نے دیکھا کہ ان کے پاؤن چل سکتے ہیں ۔ ہاتھ بوجھ اُٹھا سکتے ہیں ۔ منہ کھُل سکتا ہے۔ زبان چل سکتی ہے۔ دانت کھانے کا نوالہ چبا سکتے ہیں ۔ وہ بالکل بھلے چنگے ہیں ۔
سوال نمبر 3: مندرجہ ذیل محاوروں کو جملوں میں استعمال کیجیے۔
چین کی سانس لینا ۔ ہنسی اُڑانا ، پنجے جھاڑ کر پیچھے پڑ نا چُپ سادھد لینا جلی کٹی سُنانا
1) چین کی سانس لینا:
جب ہمارا ہوم ورک ٹیچر نے چیک نہیں کیا اور سزا نہیں دی تب سب بچوں نے چین کی سانس لی ۔
2) ہنسی اُڑانا:
کلاس میں ایک بچی بہت گندا رہتا ہے تو تمام بچے اس کی ہنسی اُڑاتے ہیں ۔
3) پنجے چھاڑ کر پیچھے پڑنا:
جب ایک بلی نے چوہے کو دیکھا کہ وہ اس کے پیچھے پنجے جھاڑ کر پڑ گئی ۔
4) چُپ سادھ لینا:
کلاس میں بچے مستی کررہے تھے اچانک اس بیچ استاد آنے پر تمام بچوں نے چُب سادھ لی ۔
5) جلی کٹی سُنانا:
ایک بچے کی عجہ سے ہم میچ ہار گئے ، پھر تمام کھلاڑی اس کو جلی کٹی سُنانے لگے۔
'کام کا کاج کا ،دشمن اناج کا ' یہ ایک کہاوت ہے جو اس سبق میں آئی ہے۔ کہاوت سے بات میں زور پیدا ہوتا ہے۔ اپنے استاد کی مدد سے نیچے دی ہوئی ادھوری کہا وتوں کو مکمل کیجیے ۔
1) مان نہ مان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔جواب: مان نہ مان میں تیرا مہمان
2) آم کے آم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب : آم کے آم گُٹلیوں کے دام
3) آسمان سے گرا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب: آسما ن سے گرا کھجور میں اٹکا
4) چار دن کی چاندنی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب: چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات ہے۔
5) ناچ نہ جانے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب: ناچ نہ جانےآنگن ٹیڑھا
6) جب تک سانس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب : جب تک سانس تب تک آس
آؤ زبان سیکھیں
ذیل کے جملوں کو پڑھ کر ان کے لہجے پر غور کیجیے ۔
1) کہا ں ہے شیر ؟
2) کیسے تکلیف فرمائی؟
ان جملوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں کوئی سوال کیا گیا ہے۔ اس لیے انہیں سوالیہ جملے کہتے ہیں ۔ ایسے جملوں کے آخر میں سوالیہ نشان ( ؟ ) لگاتے ہیں ۔
اب ان جملوں پر غو ر کیجیے۔
1- واہ ! کیا لاجواب بات سوچی ہے ۔
2) ارے ارے ! یہ کی حالت بنا رکھی ہے۔
پہلے جملے سے بولنے والے کی خوشی ظا ہر ہوتی ہے ۔ دوسرے جملے سے افسوس کا اظہار ہو تا ہے۔ ایسے جملوں کو فجائیہ جملے کہتے ہیں ۔ ان کے آخر میں جو نشان ( ! ) لگاتے ہیں ۔ اسے فجائیہ نشان کہتے ہیں۔
ذیل کے جملوں میں مناسب نشان لگائیے ۔
1) ارے واہ آپ کب آئے
جواب: ارے واہ ! آپ کب آئے۔
2) کیا تم نے یہ کتاب پڑھی
جواب: کیا تم نے یہ کتاب پڑھی؟
No comments:
Post a Comment